Sunday 11 May 2014

دن کٹ رہے ہیں کشمکش روزگار میں

دن کٹ رہے ہیں کشمکشِ روزگار میں
دَم گھٹ رہا ہے سایۂ ابرِ بہار میں
آتی ہے اپنے جسم کے جلنے کی بُو مجھے
لُٹتے ہیں نکہتوں کے سبُو جب بہار میں
گزرا ادھر سے جب کوئی جھونکا تو چونک کر
دل نے کہا، یہ آ گئے ہم کس دیار میں
اے کنجِ عافیت! تجھے پا کر پتہ چلا
کیا ہمہمے تھے گردِ سرِ رہگزار میں
میں ایک پَل کے رنجِ فراواں میں کھو گیا
مُرجھا گئے زمانے مِرے انتظار میں

مجید امجد

No comments:

Post a Comment