Saturday 10 May 2014

میں ہزار بار چاہوں کہ وہ مسکرا کے دیکھے

میں ہزار بار چاہوں کہ وہ مسکرا کے دیکھے
اسے کیا غرض پڑی ہے جو نظر اٹھا کے دیکھے
مِرے دل کا حوصلہ تھا کہ ذرا سی خاک اُڑا لی
مِرے بعد اس گلی میں کوئی اور جا کے دیکھے
کہیں آسمان ٹوٹا تو قدم کہاں رکیں گے
جِسے خواب دیکھنا ہو، وہ زمیں پہ آ کے دیکھے
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے یہ شکستِ عہد و پیماں
جو فریب دے رہا ہے وہ فریب کھا کے دیکھے
ہے عجیب کشمکش میں مِری شمعِ آرزو بھی
میں جلا جلا کے دیکھوں، وہ بجھا بجھا کے دیکھے
اُسے دیکھنے کو قیصرؔ میں نظر کہاں سے لاؤں
کہ وہ آئینہ بھی دیکھے تو چُھپا چُھپا کے دیکھے

قیصر الجعفری

No comments:

Post a Comment