Saturday, 17 May 2014

شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا

شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا
کمال فتح میں یہ ڈر کا باب کیوں آیا
دلوں میں اب کے برس اتنے وہم کیوں جاگے
بلادِ صبر میں اب اضطراب کیوں آیا
ہے آبِ گل پہ عجیب اس بہارِ گزراں میں
چمن میں اب کے گل بے حساب کیوں آیا
اگر وہی تھا تو رخ پہ وہ بے رخی کیا تھی
ذرا سے ہجر میں یہ انقلاب کیوں آیا
بس ایک ہو کا تماشا تمام سمتوں پر
میری صدا کے سفر میں سراب کیوں آیا
میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا
اڑا ہے شعلۂ برق ابر کی فصیلوں پر
یہ اس بلا کے مقابل سحاب کیوں آیا
یقین کس لیے اس پر سے اٹھ گیا ہے منیرؔ
تمہارے سر پہ یہ شک کا عذاب کیوں آیا​

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment