Wednesday 14 May 2014

اس راہِ محبت میں تو آزار ملے ہیں

اس راہِ محبت میں تو آزار ملے ہیں
پھولوں کی تمنا تھی مگر خار ملے ہیں
انمول جو انسان تھا وہ کوڑی میں بِکا ہے
دنیا میں بہت ایسے بھی بازار ملے ہیں
جس نے بھی مجھے دیکھا پتھر سے نوازا
وہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں
مالک! یہ دِیا آج ہواؤں سے بچانا
موسم ہے عجب آندھی کے آثار ملے
دنیا میں فقط ایک زلیخہ ہی نہیں تھی
ہر یوسفِؑ ثانی کے خریدار ملے ہیں
اب ان کے نہ ملنے کی شکایت، نہ گِلہ ہے
ہم جب بھی ملے خود سے تو بیزار ملے ہیں
ناصرؔ یہ تمنا تھی محبت سے ملیں گے
وہ جب بھی ملے برسرِ پیکار ملے ہیں

حکیم ناصر

No comments:

Post a Comment