ہم پی گئے سب، ہلے نہ لب تک
جی ہار گئے، نجومِ شب تک
ہر چند گھٹائیں چَھٹ گئی ہیں
پر دل پہ غبار سا ہے اب تک
خوش ہو نہ زمانہ! میرے غم پر
آئے گا یہ دورِ جام سب تک
اشکوں نے فسانہ کر دیا ہے
وہ لفظ کہ آ سکا نہ لب تک
ہر غم کو اڑا دیا ہنسی میں
تم پیشِ نظر رہے ہو جب تک
مے خانے میں سر چھپائیں آؤ
وا ہو درِ کعبہ جانے کب تک
شہرت کوئی اور بات چھیڑو
الٹیں وہ نقابِ لطف جب تک
شہرت بخاری
No comments:
Post a Comment