Thursday 29 May 2014

مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی

مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی
مجھے ایک مٹھی زمین دے یہ زمین کتنی سمٹ گئی
تری یاد آئے تو چپ رہوں ذرا چپ رہوں تو غزل کہوں
یہ عجیب آگ کی بیل تھی مرے تن بدن سے لپٹ گئی
مجھے لکھنے والا لکھے بھی کیا مجھے پڑھنے والا پڑھے بھی کیا
جہاں میرا نام لکھا گیا وہیں روشنائی الٹ گئی
نہ کوئی خوشی نہ ملال ہے کہ سبھی کا ایک سا حال ہے
ترے سکھ کے دن بھی گزر گئے مری غم کی رات بھی کٹ گئی
مری بند پلکوں پر ٹوٹ کر کوئی پھول رات بکھر گیا
مجھے سسکیوں نے جگا دیا میری کچی نیند اچٹ گئی

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment