Monday 5 May 2014

وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں

وقتِ رخصت آ گیا، دل پھر بھی گھبرایا نہیں
اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں
زندگی جتنی بھی ہے اب مستقل صحرا میں ہے
اور اس صحرا میں تیرا دور تک سایہ نہیں
میری قسمت میں فقط درد تہِ ساغر ہی ہے
اول شب جام میری سمت وہ لایا نہیں
تیری آنکھوں کا بھی کچھ ہلکا گلابی رنگ تھا
ذہن نے میرے بھی اب کے دل کو سمجھایا نہیں
کان بھی خالی ہیں میرے اور دونوں ہاتھ بھی
اب کے فصلِ گل نے مجھ کو پھول پہنایا نہیں

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment