Monday 5 May 2014

الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی

الزام تھا دیے🪔 پہ نہ تقصیر رات کی
ہم نے تو بس ہوا کے تعلق سے بات کی
ہر صبح جب کہ صبحِ قیامت کی طرح آئے
ایسے میں کون ہو گا جو سوچے ثبات کی
تکلیف تو ہوئی، مگر اے ناخنِ ملال
کھلنے لگی گرہ بھی کوئی اپنی ذات کی
زنجیر ہے، جزیرہ ہے، یا شاخِ بے ثمر
اب کون سی لکیر سلامت ہے ہات کی
مرنے اگر نہ پائی تو زندہ بھی کب رہی
تنہا کٹی وہ عمر جو تھی تیرے سات کی
پھر بھی نہ میرا قافلہ لٹنے سے بچ سکا
میں نے خبر تو رکھی تھی ایک ایک گھات کی

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment