Monday 5 May 2014

دشت غربت میں ہیں اور رنج سفر کھینچتے ہیں

دشتِ غربت میں ہیں اور رنجِ سفر کھینچتے ہیں
بارِ ہستی ہے جسے خاک بہ سر کھینچتے ہیں
جن چراغوں کو میسر نہیں اس کی محفل
انتظار اس کا سرِ راہگزر کھینچتے ہیں
زندگی پھر تجھے پیش ہے زندانِ دمشق
اشقیا پھر تیرے کانوں سے گہر کھینچتے ہیں
روشِ گل پہ، یہ کس وضع کے صیاد ہیں جو
باندھ کر طائرِ خوں بستہ کے پر کھینچتے ہیں
شہر سے جب بھی وہ جائے تو دعاؤں کا حصار
دیدۂ نم میرے تاحدِ نظر کھینچتے ہیں
جانتے ہیں کہ شکستہ ہے طنابِ امید
خیمۂ جاں تیرے کوچے میں مگر کھینچتے ہیں
تیری خوش نامی کا آتا ہے بہت دل کو خیال
گریہ کرتے ہوئے آواز اگر کھینچتے ہیں
لگ گئی تھی تیری کچھ پچھلے پہر آنکھ اے دل
آج سے ہم تیرے نالے سے اثر کھینچتے ہیں
دل کو کچھ تیری توجہ کا بھی طالب پایا
تیری توصیف سے ادب دستِ ہنر کھینچتے ہیں

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment