Friday 2 May 2014

میں تری راکھ سے ایجاد کروں گا خود کو

میں تِری راکھ سے ایجاد کروں گا خود کو
پھر تِرے عشق میں برباد کروں گا خود کو
ہر محبت نے مِرا نام الگ رکھا تھا
جانے کس نام سے اب یاد کروں گا خود کو
اصل مجھ سے نہیں چُھپتا سو اداکاری میں
شاد کرتے ہوئے ناشاد کروں گا خود کو
حُجرۂ آئینہ کو وسعتِ دُنیا دے کر
قید رکھوں گا نہ آزاد کروں گا خود کو
اپنے معدوم کو موجود سے بہتر کر کے
شہرِ خوش خواب کی بنیاد کروں گا خود کو
طاقِ انکار میں اثبات کی لو جاگے گی
یوں سپردِ شبِ الحاد کروں گا خود کو
میں وہ درویش کہ در غیض و غرض بھی شاہد
خود تلک زینۂ افتاد کروں گا خود کو

شاہد ذکی

No comments:

Post a Comment