Friday 2 May 2014

عذاب زیست کی سامانیاں نہیں جاتیں

عذابِ زیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
میری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں
بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دَم سے تھیں شنوائیاں، نہیں جاتیں
گو ایک عمر جُدائی میں ہو گئی ہے بسر
خیال و خواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں
مُراد دل کی بھی کوئی، کہاں سے بھر آئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں نہیں جاتیں
اک آرزو تھی جو حسرت میں ڈھل چکی کب کی
مگر، خیال سے شہنائیاں نہیں جاتیں
ہزار محفلِ خُوباں میں جا کے دیکھ لیا
مِلی جو تجھ سے ہیں تنہائیاں نہیں جاتیں
زمانے بھر کی دُکھوں کا ہوا ہے دل مسکن
غموں کی مجھ پہ یہ آسانیاں نہیں جاتیں
حصولِ یار کے زُمرے میں کچھ نمایاں سے
عمل نہ تھے، کی پشیمانیاں نہیں جاتیں
دیے جو چارہ گروں نے، ہم آزما بھی چکے
 کسی بھی نسخے سے بیتابیاں نہیں جاتیں
خلشؔ، جو ہوتے مقدّر کا تم سکندر تو
تمہاری زیست سے رعنائیاں نہیں جاتیں

شفیق خلش

No comments:

Post a Comment