Thursday 1 May 2014

کچھ پیار محبت کے صدموں کچھ زہر بھرے پیمانوں سے

کچھ پیار محبت کے صدموں، کچھ زہر بھرے پیمانوں سے
جو ہوش گنوائے پِھرتے ہیں، کچھ کم تو نہیں دیوانوں سے
اِس حالت پر افسوس نہیں، یہ راہِ دل کا حاصل ہے
وہ عالم دل کو راس تھا کب، نفرت ہی رہی ایوانوں سے
وہ داغ کہ ان کی چاہت میں، اس دامنِ دل پر آئے ہیں
شَل رکھا اپنا دستِ طلب اور خوف رہے ارمانوں سے
عادت سے ہماری شیخ تو ہے، سب رِند کہاں ناواقف ہیں
ہم دُور رہے ہیں مسجد سے، کب دُور رہے مے خانوں سے
ہر شمع کی یہ فطرت ٹھہری، محفل میں بلا کر جاں لینا
مرنے کا نہیں افسوس خلشؔ، نِسبت تو رہی پروانوں سے

شفیق خلش

No comments:

Post a Comment