وہ، جس کی یاد میں نیناں ہمارے ترسے رہے
اب اُس وطن کو بھی جانے سے، جاں کے ڈر سے رہے
جہاں میں جن کی توسط سے بے ثمر سے رہے
ہمارے حال سے وہ بھی تو بے خبر سے رہے
ہوا نہ ترکِ وطن سے بھی کچھ ہمیں حاصل
دیارِ غیر میں آ کر بھی در بدر سے رہے
خدا گواہ ہے، کہ رہنا یہاں نہیں تھا ہمیں
وطن میں جان گنوانے کی، اپنے ڈر سے رہے
وہ جن کو جان بھی لینے پہ کچھ ملال نہ ہو
خدا کا شکر کہ محفوظ ان کے شر سے رہے
رہِ فریب میں چل کر جو ہو گئے پُختہ
وہ زندگی کی کسی اور اب ڈگر سے رہے
ہم ان کی باتوں میں آ کر وہاں چلے جائیں
وطن کے لوگ اب ایسے نہ مُعتبر سے رہے
خلشؔ، ملال رہے یوں، کہ ہم ہمیشہ ہی
کسی بھی سانحہ ہونے کا، منتظر سے رہے
شفیق خلش
اب اُس وطن کو بھی جانے سے، جاں کے ڈر سے رہے
جہاں میں جن کی توسط سے بے ثمر سے رہے
ہمارے حال سے وہ بھی تو بے خبر سے رہے
ہوا نہ ترکِ وطن سے بھی کچھ ہمیں حاصل
دیارِ غیر میں آ کر بھی در بدر سے رہے
خدا گواہ ہے، کہ رہنا یہاں نہیں تھا ہمیں
وطن میں جان گنوانے کی، اپنے ڈر سے رہے
وہ جن کو جان بھی لینے پہ کچھ ملال نہ ہو
خدا کا شکر کہ محفوظ ان کے شر سے رہے
رہِ فریب میں چل کر جو ہو گئے پُختہ
وہ زندگی کی کسی اور اب ڈگر سے رہے
ہم ان کی باتوں میں آ کر وہاں چلے جائیں
وطن کے لوگ اب ایسے نہ مُعتبر سے رہے
خلشؔ، ملال رہے یوں، کہ ہم ہمیشہ ہی
کسی بھی سانحہ ہونے کا، منتظر سے رہے
شفیق خلش
No comments:
Post a Comment