اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر
جہان والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا
بہار کی بدنصیب راتیں بُلا رہی ہیں، چلے بھی آؤ
کسی ستارے کا رُوپ لے کر، کسی کے دل کا قرار بن کر
تلاشِ منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا
فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورتِ اعتبار بن کر
غرورِِ مستی نے مار ڈالا، وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے
کسی کی آنکھوں کا نُور ہو کر، کسی کے دل کا قرار بن کر
دیارِ پیرِ مغاں میں آ کر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغرؔ
خُدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر
ساغرؔ صدیقی
No comments:
Post a Comment