Monday 5 January 2015

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ دل فگار بن کر​

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂ دل فگار بن کر​
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر​
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی​
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر​
جہان والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا​
جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر​
بہار کی بدنصیب راتیں بُلا رہی ہیں، چلے بھی آؤ​
کسی ستارے کا رُوپ لے کر، کسی کے دل کا قرار بن کر
تلاشِ منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا​
فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورتِ اعتبار بن کر​
غرورِِ مستی نے مار ڈالا، وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے​
کسی کی آنکھوں کا نُور ہو کر، کسی کے دل کا قرار بن کر​
دیارِ پیرِ مغاں میں آ کر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر​ؔ
خُدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر​
ساغرؔ صدیقی​

No comments:

Post a Comment