Tuesday 6 January 2015

کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ

کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ
میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ
بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا
مِرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ
کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں
بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ
ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو
خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ
یہ میں ہوں تو ہے ہیولیٰ ہے ہر مسافر کا
جو مٹ رہا ہے تھکن سے ادھر غبار کے بیچ
کوئی لکیر سی پانی کی جھلملاتی ہے
کبھی کبھی مِرے متروک آبشار کے بیچ
میں عمر کو تو مجھے عمر کھینچتی ہے الٹ
تضاد سمت کا ہے اسپ اور سوار کے بیچ

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment