Sunday 4 January 2015

صبح کی چوکھٹ پہ مہرِ لوحِ شب کیسے لگی

صبح کی چوکھٹ پہ مہرِ لوحِ شب کیسے لگی

بے در و دیوار گھر میں نقب کب کیسے لگی

یہ کہا تھا، وہ نہیں تم جو دکھاتے ہو مجھے

بات فرعونوں کو یہ سوئے ادب کیسے لگی

فیصلہ تو خیر میرے حق میں کیا ہوگا مگر

مجھ پہ فردِ جرم آخر بے سبب کیسے لگی

آشیاں جن کے اجاڑے تھے لڑکپن میں کہیں

ان پرندوں کی نہ جانے آہ اب کیسے لگی

کون چلتا تھا مِرے آئینے پہ ہونٹوں کے بل

کیا خبر راحتؔ خراشِ نقشِ لب کیسے لگی


راحت سرحدی 

No comments:

Post a Comment