Saturday 26 December 2015

آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا

آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا
کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم
چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا
اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں
جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا
خضر جان کر ہم نے جس سے راہ پوچھی تھی
آ کے بیچ جنگل میں کیا بتائیں کیا نکلا
گر گیا اندھیرے میں تیرے مہر کا سورج
درد کے سمندر سے چاند یاد کا نکلا
عشق کیا ہوس کیا ہے بندش نفس کیا ہے
سب سمجھ میں آیا ہے تو جو بے وفا نکلا
جس نے دی صدا تم کو شمع بن کے ظلمت میں
رہ گزیدگاں دیکھو کس کا نقش پا نکلا
اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ
دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا مکا

عزیز قیسی

No comments:

Post a Comment