شبِ ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
غرض اس شب عجب ہی بے سروپائی کا عالم تھا
گریباں غنچۂ گل نے کیا گلشن میں سو ٹکڑے
کہ ہر فندق پر اس کے طرفہ رعنائی کا عالم تھا
نہال خشک ہوں میں اب تو یارو کیا ہوا یعنی
لکھے گر جا و بے جا شعر میں نے ڈر نہیں اس کا
کہ میں یاں تھا سفر میں مجھ پہ بے جائی کا عالم تھا
حنا بھی تو لگا دیکھی پہ وہ عالم کہاں ہے اب
ہمارے خوں سے جو ہاتھوں پہ زیبائی کا عالم تھا
چلا جب شہر سے مجنوں طرف صحرا کی یوں بولا
نصیب اپنے تو اس عالم میں رسوائی کا عالم تھا
یہ عالم ہم نے دیکھا مصحفیؔ ہاں اپنی آنکھوں سے
کہ بندہ جی سے اس معشوق ہرجائی کا عالم تھا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment