اے دل والو! گھر سے نکلو، دیتا دعوتِ عام ہے چاند
شہروں شہروں، قریوں قریوں وحشت کا پیغام ہے چاند
تُو بھی ہرے دریچے والی، آ جا برسرِ بام ہے چاند
ہر کوئی جگ میں خود سا ڈھونڈے، تجھ بِن بے آرام ہے چاند
سکھیوں سے کب سکھیاں اپنے جی کے بھید چھپاتی ہیں
جس جس سے اسے ربط رہا ہے اور بھی لوگ ہزاروں ہیں
ایک تجھی کو بے مہری کا دیتا کیوں الزام ہے چاند
وہ جو تیرا داغِ غلامی ماتھے پر لیے پھرتا ہے
اس کا نام تو انشاؔ ٹھہرا، ناحق کو بدنام ہے چاند
ہم سے بھی دو باتیں کر لے کیسی بھیگی شام ہے چاند
سب کچھ سن لے آپ نہ بولے، تیرا خوب نظام ہے چاند
ہم اس لمبے چوڑے گھر میں شب کو تنہا ہوتے ہیں
دیکھ کسی دن آ مل ہم سے، ہم کو تجھ سے کام ہے چاند
اپنے تو دل کے مشرق و مغرب اس کے رخ سے منور ہیں
بے شک تیرا روپ بھی کامل، بے شک تُو بھی ہے چاند
تجھ کو تو ہر شام فلک پر گھٹتا بڑھتا دیکھتے ہیں
اس کو دیکھ کے عید کریں گے، اپنا اور اسلام ہے چاند
ابن انشا
No comments:
Post a Comment