کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے
تِری آنکھوں سے عمرِ جاوداں تک بات پہنچی ہے
مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے
ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
عدمؔ جھگڑا قیامت تک گیا ہے جرمِ ہستی کا
ذرا سی بات تھی لیکن کہاں تک بات پہنچی ہے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment