Thursday 31 December 2015

کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے

کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے
تِری آنکھوں سے عمرِ جاوداں تک بات پہنچی ہے
مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے
ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
ابھی تو ابتدائے داستاں تک بات پہنچی ہے
عدمؔ جھگڑا قیامت تک گیا ہے جرمِ ہستی کا
ذرا سی بات تھی لیکن کہاں تک بات پہنچی ہے

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment