Tuesday 29 December 2015

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں
پھر ان سے عرضِ وفا کا ارادہ رکھتے ہیں
یہی خطا ہے کہ اس گیر و دار میں ہم لوگ
دلِ شگفتہ، جبینِ کشادہ رکھتے ہیں
خدا گواہ کہ اصنام سے ہے کم رغبت
صنم گری کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں 
دکانِ بادہ فروشاں کے صحن میں عابدؔ
فرشتے خلد کا اک در کشادہ رکھتے ہیں

عابد علی عابد

No comments:

Post a Comment