مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے تِرے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکین کے لیے گھر سے تُو باہر نکلا
جینے جی آہ تِرے کوچے سے کوئی نہ پھرا
دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشکِ تر قطرۂ خون، لختِ جگر ہجراں نے
اس دفينے ميں سے اقسامِ جواہر نکلا
ہم نے جانا تھا لکھے گا کوئی حرف اے ميرؔ
پر تِرا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment