عجب نہیں جو محبت مِری سرشت میں ہے
یہی شرار نہاں روحِ سنگ و خشت میں ہے
نہ بجلیوں کو خبر ہے نہ خوشہ چیں کو پتہ
کہ اِک نہال تمنا ہماری کشت میں ہے
یہ رنگ و نور کے نغمے یہ دلکشا جلوے
ابھی نگاہ پہ ہیں رسم و وہم کے پردے
ابھی خیال طِلسماتِ خوب و زشت میں ہے
حرم کے دیدہ وروں سے پتہ ملا عابدؔ
کہ ڈھونڈنے جسے نکلے ہو وہ کنشت میں ہے
عابد علی عابد
No comments:
Post a Comment