سوچتا ہوں حاصلِ احساس کیا کیا رہ گیا
جاں تڑپتی رہ گئی اور جسم جلتا رہ گیا
جانے والا جا چکا تھا اور میری آنکھ میں
اک ستارہ سا لرزتا، جھلملاتا رہ گیا
میں بھی پابندِ انا تھا، وہ بھی مجبورِ خودی
میری آنکھوں کے لیے حسنِ بصارت کا سبب
میرے آنگن میں تِرا نقشِ کفِ پا رہ گیا
ہم صداقت کے علمبردار ہیں، لیکن یہاں
جھوٹ جو کہتا رہا، وہ شخص اچھا رہ گیا
گو بظاہر کوئی تبدیلی نہیں ماحول میں
اس کے جانے سے مگر کوئی اکیلا رہ گیا
اک چھناکا سا منورؔ کانچ کے گھر میں ہوا
کرچیاں میں خواب کی پلکوں سے چنتا رہ گیا
منور ہاشمی
No comments:
Post a Comment