Tuesday 29 December 2015

عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگِ جاں ہو گئیں

عشق کی ٹیسیں جو مضرابِ رگِ جاں ہو گئیں
روح کی مدہوش بیداری کا ساماں ہو گئیں
پیار کی میٹھی نظر سے تُو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں
اب لبِ رنگیں پہ نوریں مسکراہٹ، کیا کہوں
بجلیاں گویا شفق زاروں میں رقصاں ہو گئی
ماجرائے شوق کی بے باکیاں ان پر نثار
ہائے وہ آنکھیں جو ضبطِ غم میں گریاں ہو گئیں
چھا گئیں دشواریاں پر میری سہل انگاریاں
مشکلوں کا اک خیال آیا کہ آساں ہو گئیں

مجید امجد

No comments:

Post a Comment