Wednesday, 30 December 2015

نیچی نظروں کے وار آنے لگے

نیچی نظروں کے وار آنے لگے
لو بس اب جان و دل ٹھکانے لگے
میری نظروں نے کیا کہا یارب
کیوں وہ شرما کے مسکرانے لگے
مصلحت ترکِ جور تھا چندے
پھر اسی ہتھکھنڈوں پہ آنے لگے
جلوۂ یار نے کیا بے خود
ہم تو آتے ہی ان کے جانے لگے
سب کا کعبہ ہے منزلِ مقصود
ہم تو آگے قدم بڑھانے لگے
کیا کہیں آمدِ بہار ہوئی
کیوں گریباں پہ ہاتھ جانے لگے
گر حقیقت نگر ہو چشم تو وہ
جلوہ ہر رنگ میں دکھانے لگے
ہم کو ربطِ گزشتہ یاد آئے
وہ جو بن ٹھن کے گھر جانے لگے
بس یہی غایتِ تصور ہے
ہجر میں لطفِ وصل آنے لگے
اس سراپا بہار کے جلوے
رنگ کچھ اور ہی دکھانے لگے
کیونکہ فرصت عدو سے تم کو ملی
جو تصور میں میرے آنے لگے
بے غذا کے تو رہ نہیں سکتے
نہ ملا کچھ تو زہر کھانے لگے
بات بنتی نظر نہیں آتی
اب وہ باتیں بہت بنانے لگے
آج مجروحؔ ضبط کر نہ سکا
کیا کرے جبکہ جان جانے لگے

میر مہدی مجروح

No comments:

Post a Comment