Friday 25 December 2015

وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا

وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا
میری آنکھ کس نے اجاڑ دی میرا خواب کس نے چرا لیا
تجھے کیا بتائیں کہ دلنشیں تیرے عشق میں تیری یاد میں
کبھی گفتگو رہی پھول سے کبھی چاند چھت پہ بلا لیا 
میری جنگ کی وہی جیت تھی ،میری فتح کا وہی جشن تھا
میں گرا تو دوڑ کے اس نے جب مجھے بازوؤں میں اٹھا لیا
میری چاند چھونے کی حسرتیں میری خوشبو ہونے کی حسرتیں
تُو ملا تو ایسا لگا صنم! مجھے جو طلب تھی، وہ پا لیا
میرے دشمنوں کی نظر میں بھی میرا قد بڑا ہی رہا سدا
میری ماں کی پیاری دعاؤں نے مجھے ذِلتوں سے بچا لیا
مجھے پہلے پہلے جو دیکھ کر تِرا حال تھا مجھے یاد ہے
کبھی جل گئیں تیری روٹیاں، کبھی ہاتھ تُو نے جلا لیا
میری ڈائری میری شاعری مِرے افتی پڑھ کے وہ رو پڑی
'میرے پاس آ کے کہا مجھے، 'بڑا روگ تُو نے لگا لیا

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment