وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اسے کس نے اپنا بنا لیا
میری آنکھ کس نے اجاڑ دی میرا خواب کس نے چرا لیا
تجھے کیا بتائیں کہ دلنشیں تیرے عشق میں تیری یاد میں
کبھی گفتگو رہی پھول سے کبھی چاند چھت پہ بلا لیا
میری جنگ کی وہی جیت تھی ،میری فتح کا وہی جشن تھا
میری چاند چھونے کی حسرتیں میری خوشبو ہونے کی حسرتیں
تُو ملا تو ایسا لگا صنم! مجھے جو طلب تھی، وہ پا لیا
میرے دشمنوں کی نظر میں بھی میرا قد بڑا ہی رہا سدا
میری ماں کی پیاری دعاؤں نے مجھے ذِلتوں سے بچا لیا
مجھے پہلے پہلے جو دیکھ کر تِرا حال تھا مجھے یاد ہے
کبھی جل گئیں تیری روٹیاں، کبھی ہاتھ تُو نے جلا لیا
میری ڈائری میری شاعری مِرے افتی پڑھ کے وہ رو پڑی
'میرے پاس آ کے کہا مجھے، 'بڑا روگ تُو نے لگا لیا
افتخار نسیم افتی
No comments:
Post a Comment