لب تِرے لعل عناب ہيں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئيے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہيں دونوں
ہے تکليف نقاب دے رخسار
تن کے معمورہ ميں يہی دل و چشم
گھر تھے دو، سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتشِ غم سے
جگر و دل کباب ہيں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھيں پڑتی ہیں
جيسے مستِ شراب ہيں دونوں
پاؤں ميں وہ نشہ طلب کا نہيں
اب تو سرمستِ خواب ہيں دونوں
ايک سب آگ، ايک سب پانی
ديدہ و دل عذاب ہيں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہيں جواب ہيں دونوں
آگے دريا تھے ديدۂ تر ميرؔ
اب جو ديکھو سراب ہيں دونوں
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment