کل نشے میں تھا وہ بت، مسجد میں گر آ جاتا
ایمان سے کہو یارو، پھر کس سے رہا جاتا
مردے کو جلا لیتے، گرتے کو اٹھا لیتے
اک دم کو جو یاں آتے تو آپ کا کیا جاتا
یہ کہیے کہ دھیان اس کو آتا ہی نہیں ورنہ
محفل میں مجھے دیکھا تو ہنسنے لگے کہنے
آنے سے ہر اک کے ہے صحبت کا مزا جاتا
ایذائیں یہ پائی ہیں، مقدور اگر ہوتا
میں رسمِ تعشق کو دنیا سے اٹھا جاتا
کیوں پاس مِرے آ کر بیٹھے ہو یوں منہ پھیرے
کیا لب تِرے مِصری ہیں، میں جن کو چبا جاتا
کیا جلوہ نما وہ مہ کوٹھے پہ ہُوا آ کر
کچھ آج سویرے سے سورج ہے چھپا جاتا
یہ کاہشیں کیوں ہوتیں، گھبرا کے اگر یہ دل
پہلو سے نکل جاتا، آرام سا آ جاتا
اچھا ہوا محفل میں مجروحؔ نہ کچھ بولا
وہ حال اگر کہتا تو کس سے سنا جاتا
میر مہدی مجروح
No comments:
Post a Comment