منہ چھپانے لگے حیا کر کے
ہوئے بے گانہ آشنا کر کے
ایسے پھر چہچہے نہ ہوویں گے
مجھ کو پچھتاؤ گے رہا کر کے
لطف کیسا، وفا ہے کیا، وہ تو
رہ کے مسجد میں کیا ہی گھبرایا
رات کاٹی 'خدا خدا' کر کے
خوب ملنے کو آئے تھے صاحب
مجھ کو مجھ سے چلے جدا کر کے
دل ہی نے اس کی خُو بگاڑی ہے
ہر گھڑی عرضِ مدعا کر کے
وہ تو غصہ میں آگ تھے، ہم نے
اور بھڑکا دیا، گِلا کر کے
آ ہی کودا تھا دَیر میں واعظ
ہم نے ٹالا، 'خدا خدا' کر کے
کھو دیا ہاتھ سے انہیں مجروحؔ
یوں ہی ہر روز التجا کر کے
میر مہدی مجروح
No comments:
Post a Comment