Wednesday 30 December 2015

منہ چھپانے لگے حیا کر کے

منہ چھپانے لگے حیا کر کے 
ہوئے بے گانہ آشنا کر کے 
ایسے پھر چہچہے نہ ہوویں گے 
مجھ کو پچھتاؤ گے رہا کر کے 
لطف کیسا، وفا ہے کیا، وہ تو 
رکھتے احسان ہیں، جفا کر کے 
رہ کے مسجد میں کیا ہی گھبرایا 
رات کاٹی 'خدا خدا' کر کے 
خوب ملنے کو آئے تھے صاحب 
مجھ کو مجھ سے چلے جدا کر کے 
دل ہی نے اس کی خُو بگاڑی ہے 
ہر گھڑی عرضِ مدعا کر کے 
وہ تو غصہ میں آگ تھے، ہم نے 
اور بھڑکا دیا، گِلا کر کے 
آ ہی کودا تھا دَیر میں واعظ 
ہم نے ٹالا، 'خدا خدا' کر کے 
کھو دیا ہاتھ سے انہیں مجروحؔ
یوں ہی ہر روز التجا کر کے

میر مہدی مجروح

No comments:

Post a Comment