غضب کيا تيرے وعدے کا اعتبار کيا
تمام رات قيامت کا انتظار کيا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کيا
مِری وفا نے مجھے خوب شرمسار کيا
وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مآل انديش
نہ اس کے دل سے مٹايا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پريشاں مِرا غبار کيا
تِری نگاہ کے تصور ميں ہم نے اے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھری کو پيار کيا
ہوا ہے کوئی مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے تِرا شيوہ اختيار کيا
نہ پوچھ دل کی حقيقت، مگر يہ کہتے ہيں
وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کيا
وہ بات کر جو کبھی آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کيا تو بڑا تُو نے افتخار کيا
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment