دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
چاندنی، نیم وا دریچہ، سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے
ہائے وہ لوگ، خوبصورت لوگ
کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج
کتنی یادوں کے سات گزری ہے
تمتماتا ہے چہرۂ ایام
دل پہ کیا واردات گزری ہے
پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ نسیمِ حیات گزری ہے
بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ
نیند آئی ہے، رات گزری ہے
مجید امجد
No comments:
Post a Comment