Tuesday 29 December 2015

دل سے ہر گزری بات گزری ہے

دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
چاندنی، نیم وا دریچہ، سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے
ہائے وہ لوگ، خوبصورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے
کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج
کتنی یادوں کے سات گزری ہے
تمتماتا ہے چہرۂ ایام
دل پہ کیا واردات گزری ہے
پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ نسیمِ حیات گزری ہے
بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ
نیند آئی ہے، رات گزری ہے

مجید امجد

No comments:

Post a Comment