ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا
گل کو شکستِ رنگ کا پیغام آ گیا
اٹھا جو صبحِ خواب سے وہ مست پرخمار
خورشید کف کے بیچ لیے جام آ گیا
سوچے تھا اہلِ جرم سے کس کو کروں میں قتل
افسوس ہے کہ ہم تو رہے مست خواب صبح
اور آفتاب عمر لب بام آ گیا
سمجھو خدا کے واسطے پیارے برا نہیں
دو دن اگر کسی کے کوئی کام آ گیا
کر قطع کب گیا تِرے کوچے سے مصحفیؔ
گر صبح کو گیا، وہیں پھر شام آ گیا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment