جو دل اس کے کوچے سے آتا رہے گا
تو البتہ وہ تلملاتا رہے گا
نہ جاگیں گے خوابیدہ خوابِ عدم سے
اگر ایک عالم جگاتا رہے گا
گر اس فصل گل میں جیے گا دِوانا
یہ شرطِ مروت ہے اے بے مروت
کہاں تک تُو مجھ کو کڑھاتا رہے گا
جو ملتا ہے تجھ کو تو آ جلد مل لے
کہ پھر ہاتھ سے وقت جاتا رہے گا
نہ ہو مصحفیؔ خصمی دل سے ایمن
رہے گا یہ جب تک ستاتا رہے گا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment