Friday 25 December 2015

بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس

بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس
کہ رہے دل نہ بے قراری دل
عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس 
وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی
کیوں ہوئی دل کو پھر اسی کی ہوس
پھرتی رہتی ہے آدمی کو لیے
خوار دنیا میں آدمی کی ہوس
دونوں یکساں ہیں بیخودی میں ہمیں
فکرِ غم ہے نہ خمری کی ہوس
واقفِ لذتِ جنوں جو ہوا
نہ رہی اس کو آگہی کی ہوس
ان کو دیکھا ہے جب سے گرمِ عتاب
آرزو کو ہے خود کشی کی ہوس
کر سکیں بھی تو ہم فقیر تِرے
نہ کریں تاجِ خسروی کی ہوس
ہجرِ ساقی کے دور میں حسرتؔ
اب نہ مے ہے نہ مے کشی کی ہوس

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment