بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس
کہ رہے دل نہ بے قراری دل
عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس
وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی
پھرتی رہتی ہے آدمی کو لیے
خوار دنیا میں آدمی کی ہوس
دونوں یکساں ہیں بیخودی میں ہمیں
فکرِ غم ہے نہ خمری کی ہوس
واقفِ لذتِ جنوں جو ہوا
نہ رہی اس کو آگہی کی ہوس
ان کو دیکھا ہے جب سے گرمِ عتاب
آرزو کو ہے خود کشی کی ہوس
کر سکیں بھی تو ہم فقیر تِرے
نہ کریں تاجِ خسروی کی ہوس
ہجرِ ساقی کے دور میں حسرتؔ
اب نہ مے ہے نہ مے کشی کی ہوس
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment