سب کی آواز میں آواز ملا رکھی تھی
اپنی پہچان مگر ہم نے جدا رکھی تھی
دوستوں نے سرِ بازار اچھالا اس کو
بات جو میں نے کبھی خود سے چھپا رکھی تھی
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
اک تِرے درد کی دولت کو سنبھالے رکھا
اور سینے میں بھلا چیز ہی کیا رکھی تھی
کیسے ہم حسرتِ تعمیر کو پورا کرتے
بہتے پانی پہ گھروندے کی بِنا رکھی تھی
ایک لمحہ مِرے آگے نہ رکا وہ منظر
میں نے جس کے لیے بینائی بچا رکھی تھی
اس نے مجھ سے بھی تِری ساری کہانی کہہ دی
جس نے تجھ کو مِری ہر بات سنا رکھی تھی
اس کے اندازِ تعلق سے منورؔ تھا عیاں
پیار میں کوئی کسر میں نے اٹھا رکھی تھی
منور ہاشمی
No comments:
Post a Comment