Friday 25 December 2015

سب کی آواز میں آواز ملا رکھی تھی

سب کی آواز میں آواز ملا رکھی تھی
اپنی پہچان مگر ہم نے جدا رکھی تھی
دوستوں نے سرِ بازار اچھالا اس کو
بات جو میں نے کبھی خود سے چھپا رکھی تھی 
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی تھی
اک تِرے درد کی دولت کو سنبھالے رکھا
اور سینے میں بھلا چیز ہی کیا رکھی تھی
کیسے ہم حسرتِ تعمیر کو پورا کرتے
بہتے پانی پہ گھروندے کی بِنا رکھی تھی
ایک لمحہ مِرے آگے نہ رکا وہ منظر
میں نے جس کے لیے بینائی بچا رکھی تھی
اس نے مجھ سے بھی تِری ساری کہانی کہہ دی
جس نے تجھ کو مِری ہر بات سنا رکھی تھی
اس کے اندازِ تعلق سے منورؔ تھا عیاں
پیار میں کوئی کسر میں نے اٹھا رکھی تھی

منور ہاشمی

No comments:

Post a Comment