Tuesday 29 December 2015

آخری حربہ ہمیں اب آزمانا چاہیے

آخری حربہ ہمیں اب آزمانا چاہیے
جو بچا ہے داؤ پر وہ بھی لگانا چاہیے
کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے
عمر بھر کے ضبطِ غم کو بھولنے کا وقت ہے
اب ہمیں دل کھول کر آنسو بہانا چاہیے
کیسا اچھا راستہ تھا جو کہیں جاتا نہ تھا
پھر اسی اک راستے پر لوٹ جانا چاہیے
زندگی اک پل کی مہلت پر بھی آمادہ نہیں
اور ہمیں قربت کا اس کی اک زمانہ چاہیے
جب انہیں پورا نہیں ہونا تو اطمینان سے
خواہشوں کو آخری حد تک بڑھانا چاہیے
اس کو حالِ زار اپنا اس کا دامن کھینچ کر
اب سنانا چاہیے، اور سب سنانا چاہیے
وہ بشارت لے کے آنے والے قاصد کیا ہوئے
منتظر ہے اک زمانہ ان کو آنا چاہیے
آخری دم تک نبھانا چاہئیں آدابِ عشق
آخری شمعوں کی صورت ٹمٹمانا چاہیے
تُو اڑا دے خاک میری جنگلوں صحراؤں میں
اے ہوائے مضطرب! مجھ کو ٹھکانا چاہیے

شبنم شکیل

No comments:

Post a Comment