آخری حربہ ہمیں اب آزمانا چاہیے
جو بچا ہے داؤ پر وہ بھی لگانا چاہیے
کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے
عمر بھر کے ضبطِ غم کو بھولنے کا وقت ہے
کیسا اچھا راستہ تھا جو کہیں جاتا نہ تھا
پھر اسی اک راستے پر لوٹ جانا چاہیے
زندگی اک پل کی مہلت پر بھی آمادہ نہیں
اور ہمیں قربت کا اس کی اک زمانہ چاہیے
جب انہیں پورا نہیں ہونا تو اطمینان سے
خواہشوں کو آخری حد تک بڑھانا چاہیے
اس کو حالِ زار اپنا اس کا دامن کھینچ کر
اب سنانا چاہیے، اور سب سنانا چاہیے
وہ بشارت لے کے آنے والے قاصد کیا ہوئے
منتظر ہے اک زمانہ ان کو آنا چاہیے
آخری دم تک نبھانا چاہئیں آدابِ عشق
آخری شمعوں کی صورت ٹمٹمانا چاہیے
تُو اڑا دے خاک میری جنگلوں صحراؤں میں
اے ہوائے مضطرب! مجھ کو ٹھکانا چاہیے
شبنم شکیل
No comments:
Post a Comment