جہاں تک ہم ان کو بھلاتے رہے ہيں
وہ کچھ اور بھی ياد آتے رہے ہيں
انہيں حال دل ہم سناتے رہے ہيں
وہ خاموش زلفيں بناتے رہے ہيں
محبت کی تاريکئ ياس ميں بھی
جفاکار کہتے رہے ہيں جنہيں ہم
انہيں کی طرف پھر بھی جاتے رہے ہيں
وہ سوتے رہے ہيں الگ ہم سے جب تک
مسلسل ہم آنسو بہاتے رہے ہيں
بگڑ کر جب آئے ہيں ان سے تو آخر
انہيں کو ہم الٹے مناتے رہے ہيں
وہ سنتے رہے مجھ سے افسانۂ غم
مگر يہ بھی ہے، مسکراتے رہے ہيں
نہ ہم ہيں نہ ہم تھے ہوس کار حسرتؔ
وہ ناحق ہميں آزماتے رہے ہيں
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment