Friday 25 December 2015

جہاں تک ہم ان کو بھلاتے رہے ہيں

جہاں تک ہم ان کو بھلاتے رہے ہيں
وہ کچھ اور بھی ياد آتے رہے ہيں
انہيں حال دل ہم سناتے رہے ہيں
وہ خاموش زلفيں بناتے رہے ہيں 
محبت کی تاريکئ ياس ميں بھی 
چرغِ ہوس جھلملاتے رہے ہيں
جفاکار کہتے رہے ہيں جنہيں ہم 
انہيں کی طرف پھر بھی جاتے رہے ہيں
وہ سوتے رہے ہيں الگ ہم سے جب تک
مسلسل ہم آنسو بہاتے رہے ہيں
بگڑ کر جب آئے ہيں ان سے تو آخر
انہيں کو ہم الٹے مناتے رہے ہيں
وہ سنتے رہے مجھ سے افسانۂ غم
مگر يہ بھی ہے، مسکراتے رہے ہيں
نہ ہم ہيں نہ ہم تھے ہوس کار حسرتؔ
وہ ناحق ہميں آزماتے رہے ہيں​

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment