Tuesday 29 December 2015

اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا

اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہیں حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو میری زندگی میں آ آ کر 
ہے مجھ میں کھوئے مِرے جی کو ڈھونڈتا رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں 
کہاں ہوں کوئی جہاں تو میرا پتہ رکھتا
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجدؔ
کریم تھا میری کوشش میں انتہا رکھتا

مجید امجد

No comments:

Post a Comment