کام فرمائیے کس طرح سے دانائی کو
لگ گئی آگ یہاں صبر و شکیبائی کو
عشق کہتا ہے یہ وحشت سے جنوں کے حق میں
چھیڑ مت بختوں جلے میرے بڑے بھائی کو
کیا خدائی ہے مُنڈانے لگے اب خط وہ لوگ
وعدہ کرتا ہے غزالانِ حرم کے آگے
کس نے یہ بات سکھائی تِرے سودائی کو
گرچہ ہیں آبلہ پا دشت جنوں کے اے خضرؑ
تو بھی تیار ہیں ہم مرحلہ پیمائی کو
اک بگولا جو پھِرا ناقۂ لیلیٰ کے گِرد
یاد کر رونے لگی اپنے وہ صحرائی کو
مست جاروب کشی کرتے ہیں یاں پلکوں سے
کعبہ پہنچے ہے مے خانے کی ستھرائی کو
جی میں کیا آ گیا انشاؔ کے یہ بیٹھے بیٹھے
کہ پسند اس نے کیا عالمِ تنہائی کو
انشا اللہ خان انشا
No comments:
Post a Comment