Friday 25 December 2015

دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے

دیا ہے دل اگر اس کو، بشر ہے، کیا کہیے
ہوا رقیب، تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے، کیا کہیے
رہے ہے یوں گِہ و بے گِہ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے، کیا کہیے
زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بِن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے
سمجھ کے کرتے ہیں، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ، سرِ رہگزر ہے، کیا کہیے
تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے، مگر ہے کیا کہیے
انہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے، کیوں لڑیئے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے، کیا کہیے
حسد، سزائے کمالِ سخن ہے، کیا کیجے
ستم، بہائے متاعِ ہنر ہے، کیا کہیے
کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے، کیا کہیے

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment