Friday 25 December 2015

یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں

یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
یہ زندگی نصیب ہے لوگوں کو کم یہاں
کوشش کے باوجود بھلائے نہ جائیں گے
ہم پر جو دوستوں نے کیے ہیں کرم یہاں
کہنے کو ہمسفر ہیں بہت اس دیار میں
چلتا نہیں ہے ساتھ کوئی دو قدم یہاں
دیوارِ یار ہو کو شبستانِ شہر یار
دو پل کو بھی کسی کے نہ سائے میں تھم یہاں
نظمیں اداس اداس فسانے بجھے بجھے
مدت سے اشکبار ہیں لوح و قلم یہاں
اے ہم نفس یہی تو ہمارا قصور ہے
کرتے ہیں دھڑکوں کے فسانے رقم یہاں

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment