بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو
تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو
بے تاب ہوں بلا سے، کن آنکھوں سے دیکھ لیں
کیا شرم ہے، حریم ہے، محرم ہے رازدار
میں سر بکف ہوں، تیغِ ادا بے نیام ہو
میں چھیڑنے کو کاش اسے گھور لوں کہیں
پھر شوخ دیدہ بر سرِ صد انتقام ہو
وہ دن کہاں کہ حرفِ تمنا ہو لب شناس
ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو
گھس پل کے چشمِ شوق قدم بوس ہی سہی
وہ بزمِ غیر ہی میں ہوں اژدہام میں
اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں
مجھ پر جو چشمِ ساقئ بیت الحرام ہو
پیرانہ سال غالبؔ مۓ کش کرے گا کیا
بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو
مرزا غالب
No comments:
Post a Comment