Wednesday 30 December 2015

کسی بھی آخری حد سے گزرنے کا تکلف کیوں

کسی بھی آخری حد سے گزرنے کا تکلف کیوں
اگر جینا ہی لازم ہے تو مرنے کا تکلف کیوں
لبا لب ہے شرابِ ناب سے میری صراحی جب
پرائی مینا سے پھر جام بھرنے کا تکلف کیوں
خبر ہے جب زمانہ رزم گہہ ہے اہلِ ہمت کی
تو ایسے میں کسی سے شکوہ کرنے کا تکلف کیوں
گریباں چاک کرنا ہے تو سینے کی ضرورت کیسا
حوادث گر مقابل ہوں تو گرنے کا تکلف کیوں
کھڑا ہوں آئینے کے سامنے بن کر حریف اپنا
حقیقت سامنے ہے جب تو ڈرنے کا تکلف کیوں
جئیں ہم یا کہ مر جائیں رہے گا یہ سفر جاری
نہیں ممکن یہاں رکنا ٹھہرنے کا تکلف کیوں
پلٹنا ہی ہے خواجہؔ جی ستاروں پر اگر اِک دن
تو بن کر خاک دھرتی پر بکھرنے کا تکلف کیوں

خواجہ اشرف
کے اشرف

No comments:

Post a Comment