کسی بھی آخری حد سے گزرنے کا تکلف کیوں
اگر جینا ہی لازم ہے تو مرنے کا تکلف کیوں
لبا لب ہے شرابِ ناب سے میری صراحی جب
پرائی مینا سے پھر جام بھرنے کا تکلف کیوں
خبر ہے جب زمانہ رزم گہہ ہے اہلِ ہمت کی
گریباں چاک کرنا ہے تو سینے کی ضرورت کیسا
حوادث گر مقابل ہوں تو گرنے کا تکلف کیوں
کھڑا ہوں آئینے کے سامنے بن کر حریف اپنا
حقیقت سامنے ہے جب تو ڈرنے کا تکلف کیوں
جئیں ہم یا کہ مر جائیں رہے گا یہ سفر جاری
نہیں ممکن یہاں رکنا ٹھہرنے کا تکلف کیوں
پلٹنا ہی ہے خواجہؔ جی ستاروں پر اگر اِک دن
تو بن کر خاک دھرتی پر بکھرنے کا تکلف کیوں
خواجہ اشرف
کے اشرف
No comments:
Post a Comment