Monday 28 December 2015

ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی

ہر لحظہ مکیں دل میں تِری یاد رہے گی
بستی یہ اجڑنے پہ بھی آباد یاد رہے گی
ہے ہستئ عاشق کا بس اتنا ہی افسانہ
برباد تھی، برباد ہے، برباد یاد رہے گی
ہے عشق وہ نعمت جو خریدی نہیں جاتی
یہ شے ہے خدا داد، خدا داد یاد رہے گی
وہ آئے بھی تو ضبط سے لب ہل نہ سکیں گے
فریاد مِری، تنشۂ فریاد یاد رہے گی
یہ حسنِ ستم کوش، ستم کوش ہے کب تک
کب تک یہ نظر بانئ بے داد یاد رہے گی
وہ زلفِ پریشاں کا سنوارے نہ سنورنا
وہ ان کے بگڑنے کی ادا یاد رہے گی

سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)

No comments:

Post a Comment