Wednesday 30 December 2015

اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا

اچھا جو خفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا
لو ہم بھی نہ بولیں گے خدا کی قسم اچھا
مشغول کیا چاہیے، اس دل کو کسی طور
لے لیویں گے ڈھونڈ اور کوئی یار ہم اچھا
گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینے میں لگائی
ہر طور غرض آپ سے ملنا ہے کم اچھا
اغیار سے کرتے ہو مِرے سامنے باتیں
مجھ پر یہ لگے کرنے نیا تم ستم اچھا
ہم معتکفِ خلوتِ بت خانہ ہیں اے شیخ
جاتا ہے تو جا تُو پئے طوفِ حرم اچھا
جو شخص مقیمِ رہِ دلدار ہیں زاہد
فردوس لگے ان کو، نہ باغِ ارم اچھا
کہہ کر گئے آتا ہوں کوئی دم کو ابھی میں
پھر دے چلے کل کی سی طرح مجھ کو دم اچھا
اس ہستئ موہوم سے میں تنگ ہوں انشاؔ
واللہ، کہ اس سے بمراتب عدم اچھا

انشا اللہ خان انشا

No comments:

Post a Comment