Thursday, 24 December 2015

مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں

مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں
اب آگے دیکھیے کیا کیا ہم اور کھوتے ہیں
خراج دیتے چلے آئے ہیں یہ صدیوں سے
ہر ایک صبح کو معمول میں پروتے ہیں
تغیرات زمانہ سے بھاگنا کیسا
نئے سوال نئے تجربوں میں ہوتے ہیں
ہم اپنی شکل بھی پہچاننے سے قاصر ہیں
بس ایک بوجھ ہے کاندھوں پہ اور ڈھوتے ہیں
نہ سرسری کوئی گزرے ہمارے شعروں سے
لہو جگر کا ہم اشعار میں سموتے ہیں
تمہارا آج نئی نسل سے تعارف ہے
غزل کے کھیت ہمیشہ جو تم نے جوتے ہیں

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment