مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں
اب آگے دیکھیے کیا کیا ہم اور کھوتے ہیں
خراج دیتے چلے آئے ہیں یہ صدیوں سے
ہر ایک صبح کو معمول میں پروتے ہیں
تغیرات زمانہ سے بھاگنا کیسا
ہم اپنی شکل بھی پہچاننے سے قاصر ہیں
بس ایک بوجھ ہے کاندھوں پہ اور ڈھوتے ہیں
نہ سرسری کوئی گزرے ہمارے شعروں سے
لہو جگر کا ہم اشعار میں سموتے ہیں
تمہارا آج نئی نسل سے تعارف ہے
غزل کے کھیت ہمیشہ جو تم نے جوتے ہیں
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment