سخنِ عشق نہ گوشِ دلِ بے تاب میں ڈال
مت یہ آتش کدہ اس قطرۂ سیماب میں ڈال
گھر کا گھر بیچ، ٹکے خرچ مئے ناب میں ڈال
زاہد! اسبابِ جہاں کچھ نہیں، دے آب میں ڈال
ابھی جھپکی ہے ٹک، اے شورِ قیامت! یہ پلک
کر کے معیوبِ طمع دل کہ نہ سن حرفِ درشت
یہ بری چٹ ہے، نہ اس گوہرِ نایاب میں ڈال
شمع ساں روئیے کیونکر نہ، کہ یاں بیٹھے ہیں
ہم بِنا ہستی کی اپنی، رہِ سیلاب میں ڈال
دسترس ہووے تو کر مہر کا طرّہ مقراض
ساقی کے سامنے دیجے شبِ مہتاب میں ڈال
کوئے میخانہ سے رکھ دل کو کنار اے سوداؔ
شیشہ ٹوٹا ہے، نہ جا کر رہِ احباب میں ڈال
مرزا رفیع سودا
No comments:
Post a Comment