Wednesday, 30 December 2015

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری! راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
خیال ان کا پرے ہے عرشِ اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ زورِ دھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
بسانِ نقش پائے رہرواں، کوئے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار، بیٹھے ہیں
کہیں ہیں صبر کس کو، آہِ ننگ و نام کیا شے ہے
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
کہیں بوسے کی مت جرأت دِلا کر بیٹھو ان سے
ابھی اس حد کو وہ کیفی نہیں، ہُشیار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں
نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے، سنا انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

انشا اللہ خان انشا

1 comment: