دل تجھ کو دیا، لے مِرا غم خوار یہی تھا
پاس اپنے تو اے شوخ! ستم گار یہی تھا
بے رونقئ سینہ میں اب کس کو دکھاؤں
داغوں سے بتاں کے کبھی گلزار یہی تھا
اب جس دل خوابیدہ کی کھلتی نہیں آنکھیں
بوسے کے عوض تم تو لگے گالیاں دینے
کل تم سے ہمارا میاں! اقرار یہی تھا
اس کو میں جو دیکھا، مجھے شب اس نے تو بولا
لاؤ اسے، کل بھی پسِ دیوار یہی تھا
دیکھی جو مِری نعش تو کر اس کو اشارہ
بولا کہ مِری چشم کا بیمار یہی تھا
کیوں مصحفیؔ خستہ کے تئیں تُو نے کیا قتل
کیا سینکڑوں عاشق میں گنہگار یہی تھا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment